پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال ایک کروڑ سے زائد بچے کم عمری میں ہی انتقال کرجاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں چھ لاکھ بچے پانچویں سالگرہ منانے سے قبل ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
ماہرین غذائیت کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں اسہال‘ نمونیااور غذائی کمی کی شرح کم عمر بچوں کے اموات کی اہم وجوہات ہیں۔ معالجین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پانچ سال اور اس سے کم عمر والے بچوں کی اموات میں تقریباً 80فیصد اموات کا سبب مذکورہ بالا یہی تین بیماریاں ہیں اکثر مائیں دوران حمل اور اس سے قبل اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتی ہیں۔ غذائی کمی کے باعث ان کا جسم لاغر ہوجاتا ہے اور انہیں اس بات کا احساس بھی نہیں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی خواتین جب مائیں بنتی ہیں تو ان کے ہاں بھی بچے عموماً کم وزن کے پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ان بچوں کو مناسب خوراک نہ ملے تو یہ اور کمزور ہوجاتے ہیں اور اکثر بیمار بچے ہوتے ہیں۔
پاکستان میں آلودہ ماحول: طب و صحت کے بارے میں معمولی لاعلمی کی وجہ سے اکثر مائیں اس بات سے بھی لاعلم ہوتی ہیں کہ بچے کوبیماری کی حالت میں دوا کے علاوہ غذا کیلئے کس کس چیز کی ضرورت ہوسکتی ہے اگرچہ بچے کو بیماری کی حالت میں دوا کے علاوہ غذا کیلئے کس کس چیز کی ضرورت ہوسکتی ہے اگرچہ بچے کو بیماری کی حالت میں بھوک نہیں لگتی تاہم اگر بیماری میں بچے کو غذا نہ ملے تو اس کا جسم مزید کمزور ہوسکتا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بچپن میں کسی بیماری کے دوران اگر بچے کو مناسب دوائیں اور ماں کی صحیح نگہداشت نہ ملے تو اس دوران ہونے والی کمزوری ساری زندگی اسکا پیچھا نہیں چھوڑتی ہے۔ بچے کو کسی بیماری کے دوران اگر غذا نہ ملے تو یہ کمزوری انہیں مزید بیماریاں مثلاًمسلسل اسہال‘ باربار نمونیہ اور تپ دق کا بھی شکار بنادیتی ہے۔ یہ بیماریاں بچے کی توانائی کو بڑی حد تک کمزور کرکے انہیں لاغر کردیتی ہیں اور بسا اوقات ان بیماریوں میں پیدا ہونے والی کمزوری ساری عمر ان کا پیچھا نہیں چھوڑتی ہے۔
اکثر لاعلم اور کم علم مائیں بچے کے بیمار ہونے پربچے کو دوائیں تو کھلاتی ہیں لیکن خوراک دینا بند کردیتی ہیں یا پھر یہ کم مقدار میں خوراک دیتی ہیں جس کے باعث بچے میں بیماری کے خلاف قوت مدافعت بہت ہی کم ہوجاتی ہے اور اسے مکمل صحت یاب ہونے میں کافی دن لگ جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس صورتحال میں بہت سارے بچے کمزور ہڈیوںکا ڈھانچہ بن کر بالآخر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
دوا کیساتھ ساتھ مناسب خوراک بھی بہت ضروری ہوتی ہے۔ ذیل میں دو سال کی عمر تک کے بچوں کو بیماری کی صورت میں دی جانے والی غذاؤں کے متعلق ضروری معلومات دی جارہی ہیں جو کہ یقینا آپ کیلئے مفید ہوں گی۔
اسہال کے دوران کیا خوراک دی جائے؟: دستوں اور اسہال کی بیماری بچوں میں نہایت عام ہوجاتی ہے۔ یہ اتنی خطرناک ہوتی ہے کہ جان بھی لے سکتی ہے۔ اکثر مائیں ایسی بیماری کے دوران اس شش و پنج کا شکار رہتی ہیں کہ آیا بچوں کو خوراک دی جائے یاا نہیں فاقہ کروایا جائے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اس عارضے میں بچے کو فاقہ نہ کروایا جائے۔ آپ کا بچہ جو کہ غذا بند کردینے اور اسہال ودست کے باعث پہلے ہی بہت کمزور ہوچکا ہوتا ہے اگر اس کو خوراک بھی نہ دی جائے تو اس کی کمزوری بہت بڑھ جائیگی اس طرح اس کے بدن میں بیماری کیخلاف قوت مدافعت بھی کمزور پڑتی جائیگی بالآخر وہ بیماری کا مقابلہ بالکل ہی نہیں کرپائے گا۔ دوسری بات یہ کہ اس صورت میں مرض کا دورانیہ بھی بڑھ سکتا ہے اور اس بات کا بھی خطرہ رہتا ہے کہ بچے پر کہیں دوسری بیماریاں بھی حملہ آور نہ ہوجائیں۔
اگر بچہ چھوٹا ہے اور ماں کے دودھ پر ہی اس کی غذا کا انحصار ہے تو اسے دودھ پلانا بند نہ کریں۔ اگر بچہ چھ ماہ سے دو سال کی عمر تک کا ہے تو آپ اس دوران اپنے دودھ کے ساتھ ساتھ نرم اور صاف ستھری غذا بھی دیتی رہیں۔
بعض مائیں جو ایسی صورتحال سے گزر چکی ہوتی ہیں ان کا کہنا ہے کہ بعض اوقات بچے کو غذا دینے سے اسہال میں شدت آجاتی ہے۔ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے لیکن میں پھر کہوں گی کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بچے کو خوراک دی جانی بند کردی جائے۔ اصل بات یہ ہے کہ بعض بچے غذائی کمی کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ان کا معدہ کمزور پڑجاتا ہے اور وہ غذا ہضم نہیں کرپاتے ہیں اگر بچے کو زودہضم اور نرم غذا آہستہ آہستہ اور کم مقدار میں دی جائے تو اسہال بڑھنے کی شکایت نہیں ہوتی ہے۔ بعض بیماریاں ایسی ہیں جن میں غذا کے کسی جزو سے الرجی ہوجاتی ہے اور یہ بھی اسہال کے بڑھنے کا سبب بن جاتی ہے۔ ایسی صورت میں سب سے بہتر یہی ہے کہ اس بارے میں بچوں کے امراض کے ماہر ڈاکٹر سے رجوع کرکے مشورہ لیا جائے۔
نزلہ و زکام: نزلہ و زکام میں عموماً ناک بند ہوجاتی ہے ایسی صورت میں بچے منہ کھول کر سانس لیتے ہیں۔ دودھ پینے والے کمسن بچوں کی مائیں اکثر کہتی ہیں کہ بچہ ناک سے سانس نہ لے سکے تو اس کا دودھ پینا مشکل ہوجاتا ہے۔ ایسی ماؤں کو چاہیے کہ اگر بچے کی ناک بند ہے اور وہ بہت چھوٹا ہے تو دودھ چمچ میں نکال کر اسے پلائیں۔
نمونیا‘ ٹائیفائیڈ اور یرقان: ان امراض کے دوران بچے کو ہلکی اور زودہضم غذا بدستور دی جانی چاہیے۔ دودھ کھچڑی‘ دہی‘ پھل وغیرہ کے علاوہ روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کوسالن کے شوربے میں بھگو کر نرم کرنے کے بعد اسے مسل کر بچے کو کھلایا جائے۔ اگر بچہ صرف ماں کا دودھ پیتا ہے تو اس کو دودھ پلانا بند نہ کیجئے۔ اگر بچہ نمونیا کا شکار ہوجائے تو ایسی صورت میں اس کی غذا بند نہ کرنی چاہیے۔ اگر وہ دودھ ہی پی رہا ہے یا کچھ کھا پی بھی سکتا ہے تو اسے غذا بدستور دیتے رہیں۔ سوائے ایسی حالت میں کہ جس میں بچے کی سانس اتنی تیز ہو کہ دودھ اس کے معدے میں جانے کے بجائے سانس کی نالی میں چلے جانے کا خطرہ ہو یا بچہ نیم بے ہوش سا ہوجائے تو پھر کھلانے پلانے میں احتیاط لازم ہے۔
نرم غذا:بیماری اور صحت یاب ہونے کے بعد کافی دنوں تک بچے کی توانائیاں مضمحل رہتی ہیں لہٰذا اگر آپ کا بچہ خوراک لیتا ہے تو پھر بیماری کے دوران اور اس کے بعد بھی اسے ہلکی غذا دینا جاری رکھیں بچے کو ایک روز میں کم از کم چھ مرتبہ خوراک دیں اور ہر مرتبہ اس خوراک کی مقدار آدھی پیالی سے زیادہ نہ ہو۔ بچے کو وٹامن اے سے بھرپور غذائیں مثلاً دودھ سے بنی ہوئی اشیاء کھچڑی دہی کے ساتھ نرم مسلا ہوا آم کا گودا‘ انڈے کی زردی‘ اچھی طرح ابلی اور مسلی ہوئی گاجریں‘ مسلی ہوئی شکرقندی وغیرہ اس لحاظ سے مناسب ہیں۔
غذا کو طاقت ور بنانے کیلئے اس میں تھوڑا سا دیسی گھی‘ تیل یا مکھن بھی شامل کردیا جائے کیونکہ نرم غذا بچے کو جلد ہضم ہوجاتی ہے‘ لہٰذا اسے جو بھی غذا دیں اچھی طرح مسل کردیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں